میرا سایہ ہے مرے ساتھ جہاں جاؤں میں
بے بسی تو ہی بتا خود کو کہاں پاؤں میں
بے گھری مجھ سے پتہ پوچھ رہی ہے میرا
در بدر پوچھتا پھرتا ہوں کہاں جاؤں میں
زخم کی بات بھی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی
دل نہیں پھول کہ ہر شخص کو دکھلاؤں میں
زندگی کون سے ناکردہ گنہ کی ہے سزا
خود نہیں جانتا کیا اوروں کو بتلاؤں میں
ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا
سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں

غزل
میرا سایہ ہے مرے ساتھ جہاں جاؤں میں
سلیمان اریب