EN हिंदी
میرا فن میری غزل تیرا اشارا تو نہیں | شیح شیری
mera fan meri ghazal tera ishaara to nahin

غزل

میرا فن میری غزل تیرا اشارا تو نہیں

مظہر امام

;

میرا فن میری غزل تیرا اشارا تو نہیں
حسن تیرا اسی پردے میں خود آرا تو نہیں

دم ظلمت بھی جو آنکھوں میں ہے تصویر سحر
ہاتھ کچھ اس میں بھی اے دوست تمہارا تو نہیں

کاکل وقت میں سلجھاؤ نظر آتا ہے
آپ نے زلف پریشاں کو سنوارا تو نہیں

میرے احساس کی وادی میں شفق سی جھلکی
مجھ کو دوشیزۂ فطرت نے پکارا تو نہیں

دامن حسن سے کچھ اور سلگ اٹھتی ہے
عشق کی آنکھ میں شبنم بھی شرارا تو نہیں

مانتا ہوں کہ کنارے کی تمنا ہے مجھے
میں نے طوفاں سے کیا پھر بھی کنارا تو نہیں

خون گلشن ہے پس پردۂ اعلان بہار
دیکھنا غنچۂ نورس میں شرارا تو نہیں

پھر نئے سر سے پر و بال میں جنبش سی ہوئی
نرگس شاہد گل کا یہ اشارا تو نہیں

تھم گئی صوت جرس رک گئے رہبر کے قدم
کسی گم کردۂ منزل نے پکارا تو نہیں

میں نے مانا ترے کوچے میں قدم اٹھ نہ سکے
زیست کی دوڑ میں لیکن کبھی ہارا تو نہیں