میرا عدم وجود بھی کیا زرنگار تھا
چاروں طرف خلا میں چمکتا غبار تھا
ساحل بنی نگاہ کی حد فاصلے مٹے
گرداب موج دود مکاں کا حصار تھا
پی کر لہو سیاہ ہوئی کشت آرزو
کیا دیکھتے کہ خاک کا دعویٰ بہار تھا
موجوں میں ڈوبتی ہوئی سرخی تھی شام کی
دل دشت پر سکوت تھا دریا قرار تھا
اک بوجھ اٹھائے شام کو لوٹا ہوں میں نڈھال
میں اپنے دام شوق میں کیا خود شکار تھا
دل کا سراغ کیا کہ جہاں تک نگاہ کی
نیرنگ نقش رفتۂ پاے فرار تھا
میں اک شجر سکوت تھا اور میری چھاؤں میں
گرتا ہوا صداؤں کا اک آبشار تھا
خورشید و ماہ میرے لئے اک فسانہ تھے
تاریک جنگلوں کا میں لیل و نہار تھا
شعلے دراز دست تھے اور میرے سامنے
خورشید شام دشت کا تاریک غار تھا
میں خاک دل بکھیر رہا تھا ہوا میں زیبؔ
اور اس سے بے خبر تھا کہ اس میں شرار تھا
غزل
میرا عدم وجود بھی کیا زرنگار تھا
زیب غوری