میں رتجگوں کا سفیر ٹھہرا تھا کتنی راتیں گزار آیا
ریاض تھا با رسوخ میرا مرے سخن میں نکھار لایا
کوئی بھی حالت نہیں دوامی کوئی بھی صورت نہیں مدامی
حیات اپنی ہے وہ خزانہ نہیں ہے جس میں قرار مایا
نہ مجھ پہ لطف سحر ہوا ہے نہ مجھ پہ وا کوئی در ہوا ہے
نہ میں نے دیکھی ہے رت سہانی نہ مجھ پہ ابر بہار چھایا
جسے میں سمجھا تھا یار اپنا جسے کہا غم گسار اپنا
بنایا تھا ہم جلیس جس کو ستم اسی نے ہزار ڈھایا
جو میں نے چھیڑا ہے راگ ناقدؔ وہ راگ بے وقت کا نہیں ہے
سحر کو چھیڑی ہے بھیروی تو بسنت رت میں ملار گایا
غزل
میں رتجگوں کا سفیر ٹھہرا تھا کتنی راتیں گزار آیا
شبیر ناقد