میں ایسا ذوق زیبائش بروئے کار لے آیا
کہ خود آرائی کی خاطر لباس دار لے آیا
زمیں کی محوری گردش سے عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں
گزرتا وقت سائے کو پس دیوار لے آیا
مگر مجھ کو یہ احساس ندامت مار ڈالے گا
پرائے پیڑ سے پھل توڑ کر دو چار لے آیا
یہ سارے لوگ اس کے حق میں رائے دینے والے ہیں
وہ اپنی ساری تصویریں سر بازار لے آیا
جہاں سے واپسی کا راستہ قسمت سے ملتا ہے
وہاں تک قافلے کو قافلہ سالار لے آیا
وراثت میں نسیمؔ اس سے بڑی جاگیر کیا ہوگی
میں دل کی دھڑکنوں میں اپنی ماں کا پیار لے آیا

غزل
میں ایسا ذوق زیبائش بروئے کار لے آیا
نسیم عباسی