EN हिंदी
محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو | شیح شیری
mehwar pe bhi gardish meri mehwar se alag ho

غزل

محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو

تفضیل احمد

;

محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو
اس بحر میں تیروں جو سمندر سے الگ ہو

اپنا بھی فلک ہو مگر افلاک سے ہٹ کے
ہو بوجھ بھی سر کا تو مرے سر سے الگ ہو

میں ایسا ستارہ ہوں تری کاہکشاں میں
موجود ہو منظر میں نہ منظر سے الگ ہو

دیوار نمائش کی خراشوں کا ہوں میں رنگ
ہر لمحہ وہ دھاگہ ہے جو چادر سے الگ ہو

اس آتش افسوں کو کوئی کیسے بجھائے
جس آگ میں گھر جلتا ہو وہ گھر سے الگ ہو

چھتری رکھوں اس ابر سیہ گام کی خاطر
کوفی بھی نہ ہو اور بہتر سے الگ ہو

رب اور تمنائے دوئی وہم بشر ہے
ہم زاد تو کیا عکس بھی داور سے الگ ہو

دامن میں وہ دنیا ہے جو دنیا سے جدا ہے
آئے وہ قیامت بھی جو محشر سے الگ ہو

پارے کی طرح شہر کا بکھراؤ ہے تفضیلؔ
ایسا کوئی بتلاؤ جو اندر سے الگ ہو