مہرباں ہم پہ جو تقدیر ہماری ہوگی
آپ کی زلف گرہ گیر ہماری ہوگی
عمر بھر آپ ہی دیکھیں گے کوئی خواب طرب
لیکن اس خواب کی تعبیر ہماری ہوگی
آج کی رات ہے عرفان حجابات کی رات
آج ہر شمع میں تنویر ہماری ہوگی
آج پھر وصل کے اڑتے ہوئے لمحے سن لیں
وقت کے پاؤں میں زنجیر ہماری ہوگی
کچھ بھی ہو آپ کے ماحول کا معیار حیات
آپ کے ذہن میں تصویر ہماری ہوگی
تہمتوں سے ہمیں دے گا یہ جہاں داد وفا
اب اسی ڈھنگ سے توقیر ہماری ہوگی
ایک عنواں میں سمٹ آئیں گے سو نام قتیلؔ
داستاں جب کوئی تحریر ہماری ہوگی
غزل
مہرباں ہم پہ جو تقدیر ہماری ہوگی
قتیل شفائی