محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی
خوشبو دیے کی شام سے آگے نکل گئی
غافل نہ جانئے مجھے مصروف جنگ ہوں
اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں
یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی
مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
عاصمؔ وہ کوئی دوست نہیں تھا جو ٹھہرتا
دنیا تھی اپنے کام سے آگے نکل گئی
غزل
محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی
لیاقت علی عاصم