معیار سخن ہوں نہ کوئی عظمت فن ہوں
بڑھتے ہوئے پتھراؤ میں شیشے کا بدن ہوں
اس طرح مجھے دیکھ رہا ہے کوئی جیسے
میں دور کے جلتے ہوئے خوابوں کی تھکن ہوں
سو بار اندھیروں نے جسے قتل کیا ہے
تخلیق کے ماتھے کی وہی ایک کرن ہوں
آواز انا الحق کی طرح ساتھ ہی تیرے
اک عمر سے اے سلسلۂ دار و رسن ہوں
زخموں کے جھروکے میں کوئی شمع جلا کر
کہتا ہے میں کچھ اور نہیں درد وطن ہوں
ہیں جس کے لیے آج نئے لفظ و معانی
تاریخ کا وہ نشۂ صہبائے کہن ہوں
صحرا کا سلگتا ہوا احساس ہوں جامیؔ
ذروں کی طرح دہر میں بکھرا ہوا تن ہوں
غزل
معیار سخن ہوں نہ کوئی عظمت فن ہوں
خورشید احمد جامی

