مضمون عشق ذہن ستم گر میں آ گیا
دریا سمٹ کے حلقۂ ساغر میں آ گیا
ہنگام ذبح جسم نے گستاخیاں جو کیں
دھبا لہو کا دامن خنجر میں آ گیا
آ نکلے تیرے سامنے کیا پوچھتا ہے یار
کچھ اس گھڑی یہی دل مضطر میں آ گیا
اس سرو قد کے قامت موزوں کو دیکھ کر
خم اے شگفتہؔ نخل صنوبر میں آ گیا
غزل
مضمون عشق ذہن ستم گر میں آ گیا
منشی خیراتی لال شگفتہ