مضحکہ آؤ اڑائیں عشق بے بنیاد کا
اک جدا مدفن بنائیں تیشۂ فرہاد کا
واہ واہ کیا رنگ بدلا گلشن ایجاد کا
سایۂ گل پر گماں ہونے لگا صیاد کا
بہہ چلا ہے اشک حسرت المدد اے برق یاس
یہ بھی اک دانہ ہے میرے خرمن برباد کا
کس نگاہ گرم سے دیکھا ہے اس نے وقت قتل
آہ ٹھنڈی پڑ گئی دم گھٹ گیا فریاد کا
غنچہ غنچہ خوف سے مجھ کو نظر آیا قفس
پتے پتے پر ہوا دھوکا کف صیاد کا
یہ سمجھ لیجے کسی شاعر کے دل کا ٹوٹنا
ٹوٹ جانا ہے طلسم عالم ایجاد کا
ہو نہ احساس اسیری تو رہائی ہے محال
ایسے قیدی نام تک لیتے نہیں میعاد کا
ضعف کی یہ ہمتیں ہیں ناتوانی کا یہ زور
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا دامن مری فریاد کا
اس سخنور سے مجھے فیض سخن ہے اے حفیظؔ
نام نامی ہے گرامی جس جہاں استاد کا
غزل
مضحکہ آؤ اڑائیں عشق بے بنیاد کا
حفیظ جالندھری