EN हिंदी
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں | شیح شیری
maze jahan ke apni nazar mein KHak nahin

غزل

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں

مرزا غالب

;

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سواے خون جگر سو جگر میں خاک نہیں

مگر غبار ہوے پر ہوا اڑا لے جاے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے
کہ غیر جلوۂ گل رہ گزر میں خاک نہیں

بھلا اسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفس بے اثر میں خاک نہیں

خیال جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانہ کے دیوار و در میں خاک نہیں

ہوا ہوں عشق کی غارتگری سے شرمندہ
سواے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں