EN हिंदी
مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں | شیح شیری
maze betabiyon ke aa rahe hain

غزل

مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں

جلیلؔ مانک پوری

;

مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں
وہ ہم کو ہم انہیں سمجھا رہے ہیں

ابھی کل تک تھے کیسے بھولے بھالے
ذرا ابھرے ہیں آفت ڈھا رہے ہیں

کہا اس نے سوال وصل سن کر
کہ مجھ سے آپ کچھ فرما رہے ہیں

وہ بجلی ہیں تو ہوں ان کو مبارک
مجھے کس واسطے تڑپا رہے ہیں

مجھے تو انتظار چارہ گر ہے
الٰہی غش پہ غش کیوں آ رہے ہیں

رہے دامن بھرا ان کا ہمیشہ
لحد پر پھول جو برسا رہے ہیں

سنا کر قصۂ پروانہ و شمع
ہمارے دل کو وہ گرما رہے ہیں

دو روزہ حسن پر پھولے ہیں کیا گل
بڑے کم ظرف ہیں اترا رہے ہیں

کبھی ہم نے پیا تھا بادۂ عشق
جلیلؔ اس کے مزے اب آ رہے ہیں