EN हिंदी
مزا تھا ہم کو جو بلبل سے دو بدو کرتے | شیح شیری
maza tha hum ko jo bulbul se du-badu karte

غزل

مزا تھا ہم کو جو بلبل سے دو بدو کرتے

وقار حلم سید نگلوی

;

مزا تھا ہم کو جو بلبل سے دو بدو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے

مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے

غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیونکہ بے وضو کرتے

اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے

یقیں ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے

سمجھیو دار و رسن تار و سوزن اے منصور
کہ چاک پر وہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے

نہ رہتی یوسف کنعاں کی خوبیٔ بازار
مقابلہ میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے

چمن بھی دیکھتے گلزار آرزو کی بہار
تمہاری باد بہاری میں آرزو کرتے

عجب نہ تھا کہ زمانہ کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے تو خاک سے وضو کرتے

سراغ عمر گزشتہ کا لیجیے گر ذوق
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے