مزہ لمس کا بے زبانی میں تھا
عجب ذائقہ خوش گمانی میں تھا
مری وسعتوں کو کہاں جانتا
وہ محو اپنی ہی بے کرانی میں تھا
مٹاتے رہے اولیں یاد کو
کہ جو نقش تھا نقش ثانی میں تھا
بہت دیر تک لوگ ساحل پہ تھے
سفینہ مرا جب روانی میں تھا
ہمیں سے نہ آداب برتے گئے
سلیقہ بہت میزبانی میں تھا
مئے کہنہ میں تھا نشہ در نشہ
مگر جو مزہ تازہ پانی میں تھا
ہمیں وہ ہمیں سے جدا کر گیا
بڑا ظلم اس مہربانی میں تھا
سفر میں اچانک سبھی رک گئے
عجب موڑ اپنی کہانی میں تھا
غزل
مزہ لمس کا بے زبانی میں تھا
مظہر امام