مواد کر کے فراہم چمکتی سڑکوں سے
سجا رہا ہوں غزل کو نئے خیالوں سے
چھپی ہے ان میں نہ جانے کہاں کی چیخ پکار
بلند ہوتے ہیں نغمے جو روز محلوں سے
نظر نہ آئی کبھی پھر وہ گاؤں کی گوری
اگرچہ مل گئے دیہات آ کے شہروں سے
گزار دیتے ہیں عمریں وہ گھپ اندھیروں میں
لٹک رہے ہیں جو بجلی کے اونچے کھمبوں سے
سمندر اب تو انہیں اور بے قرار نہ کر
گزر کے آئی ہیں لہریں ہزار نہروں سے
طلوع ہوگا ابھی کوئی آفتاب ضرور
دھواں اٹھا ہے سر شام پھر چراغوں سے
حزیںؔ یہ شعلۂ تاباں کبھی نہیں بجھتا
میں کیوں حیات کو تشبیہ دوں حبابوں سے
غزل
مواد کر کے فراہم چمکتی سڑکوں سے
حزیں لدھیانوی