موضوع سخن ہمت عالی ہی رہے گی
جو طرز نکالوں گا مثالی ہی رہے گی
اب مجھ سے یہ دنیا مرا سر مانگ رہی ہے
کمبخت مرے آگے سوالی ہی رہے گی
وہ نشۂ غم ہو کہ خمار مے پندار
دل والوں کے چہرے پہ بحالی ہی رہے گی
اب تک تو کسی غیر کا احساں نہیں مجھ پر
قاتل بھی کوئی چاہنے والی ہی رہے گی
میں لاکھ اسے تازہ رکھوں دل کے لہو سے
لیکن تری تصویر خیالی ہی رہے گی
اس دل پہ ٹھہرنے کا نہیں زیبؔ کوئی نقش
یہ آنکھ کسی رنگ سے خالی ہی رہے گی
غزل
موضوع سخن ہمت عالی ہی رہے گی
زیب غوری