موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا
چھوٹی چھوٹی باتوں میں دلچسپی لینا
نرم نظر سے چھونا منظر کی سختی کو
تند ہوا سے چہرے کی شادابی لینا
جذبوں کے دو گھونٹ عقیدوں کے دو لقمے
آگے سوچ کا صحرا ہے کچھ کھا پی لینا
مہنگے سستے دام ہزاروں نام یہ جیون
سوچ سمجھ کر چیز کوئی اچھی سی لینا
آوازوں کے شہر سے بابا کیا ملنا ہے
اپنے اپنے حصے کی خاموشی لینا
دل پر سو راہیں کھولیں انکار نے جس کے
سازؔ اب اس کا نام تشکر سے ہی لینا
غزل
موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا
عبد الاحد ساز