موت کی سمت جان چلتی رہی
زندگی کی دکان چلتی رہی
سارے کردار سو گئے تھک کر
بس تری داستان چلتی رہی
میں لرزتا رہا ہدف بن کر
مشق تیر و کمان چلتی رہی
الٹی سیدھی چراغ سنتے رہے
اور ہوا کی زبان چلتی رہی
دو ہی موسم تھے دھوپ یا بارش
چھتریوں کی دکان چلتی رہی
جسم لمبے تھے چادریں چھوٹی
رات بھر کھینچ تان چلتی رہی
پر نکلتے رہے بکھرتے رہے
اونچی نیچی اڑان چلتی رہی
غزل
موت کی سمت جان چلتی رہی
فہمی بدایونی