EN हिंदी
موت کے چہرے پہ ہے کیوں مردنی چھائی ہوئی | شیح شیری
maut ke chehre pe hai kyun murdani chhai hui

غزل

موت کے چہرے پہ ہے کیوں مردنی چھائی ہوئی

حفیظ جالندھری

;

موت کے چہرے پہ ہے کیوں مردنی چھائی ہوئی
دیکھنا کون آ گیا کیوں ٹل گئی آئی ہوئی

کوئی بدلی تو نہیں ابھری افق پر دیکھنا
پھر فضائے توبہ پر ہے بے دلی چھائی ہوئی

سیکھ دنیا ہی میں زاہد حور سے ملنے کے ڈھنگ
ورنہ روئے گا کہ جنت میں بھی رسوائی ہوئی

خانۂ دل میں کسی پردہ نشیں کی آرزو
آرزو کیا ہے دلہن بیٹھی ہے شرمائی ہوئی

عشق ہے اپنی وفاؤں سے بھی شرمایا ہوا
عقل ہے اپنی خطاؤں پر بھی اترائی ہوئی

کاش اس مصرع کا تم کو پاس ہوتا اے حفیظؔ
یہ بہار آئی ہوئی ایسی گھٹا چھائی ہوئی