موت اک درندہ ہے زندگی بلا سی ہے
صبح بھی اداسی ہے شام بھی اداسی ہے
اپنی انتہا پر ہم شاید ابتدا میں ہیں
تب بھی بے بسی تھی اب بھی بے لباسی ہے
بادلوں کو آنا ہے لوٹ کر اسی جانب
یہ زمیں ہی پیاسی تھی یہ زمیں ہی پیاسی ہے
یہ بھی ایک نعمت ہے کاش تم سمجھ پاؤ
زندگی کے اندر جو اپنے اک خلا سی ہے
جانتا تو سب کچھ ہے وہ بھی میرے بارے میں
کیا کریں جو ظالم میں خوئے نا شناسی ہے
فرق ہے تو ہم میں ہے وقت ایک جیسا ہے
سن چھیانوے ہے یہ یا کہ سن چھیاسی ہے

غزل
موت اک درندہ ہے زندگی بلا سی ہے
سعد اللہ شاہ