EN हिंदी
موت ہی ایک دوا ہے اور وہ جاری ہے | شیح شیری
maut hi ek dawa hai aur wo jari hai

غزل

موت ہی ایک دوا ہے اور وہ جاری ہے

فرحت احساس

;

موت ہی ایک دوا ہے اور وہ جاری ہے
ہم کو زندہ رہنے کی بیماری ہے

صرف اداس رہو گے گر تم سچے ہو
باقی ہر جذبہ مشق فن کاری ہے

اندر اندر در بہ دری ہی در بہ دری
باہر باہر خوب در و دیواری ہے

جسم بہت بھاری ہیں شہر کے لوگوں کے
جسموں میں دل ہیں تو اور بھی بھاری ہیں

دریا میں ساحل ہیں دخل انداز بہت
دریا بیچارہ کیا ہے بس جاری ہے

میں تو اپنے آپ سے عاری ہوں کب سے
پھر یہ کس کے ہونے کی تیاری ہے

شعر میں ایک ذرا سا ہوتا ہے الہام
اس کے بعد تو جو کچھ ہے فن کاری ہے

فن کاری تو ایرے غیرے بھی کر لیں
اصلاً تو الہام میں ہی دشواری ہے

جسم اڑا پھرتا ہے وہی بازاروں میں
روح وہی مصروف خانہ داری ہے

چہرہ ابھی تک ہے خانہ آباد مرا
اس کے مقابل آئینہ بازاری ہے

کاسۂ جسم بنا بیٹھا ہے جب دیکھو
یہ فرحتؔ احساس عجیب بھکاری ہے