موت ہی چارہ ساز فرقت ہے
رنج مرنے کا مجھ کو راحت ہے
ہو چکا وصل وقت رخصت ہے
اے اجل جلد آ کہ فرصت ہے
روز کی داد کون دیوے گا
ظلم کرنا تمہاری عادت ہے
کارواں عمر کا ہے رخت بدوش
ہر نفس بانگ کوس رحلت ہے
سانس اک پھانس سی کھٹکتی ہے
دم نکلتا نہیں مصیبت ہے
تم بھی اپنے حیاؔ کو دیکھ آؤ
آج اس کی کچھ اور حالت ہے

غزل
موت ہی چارہ ساز فرقت ہے
مرزا رحیم الدین حیا