EN हिंदी
موت ہاں برحق ہے لیکن زندگی فانی کہاں | شیح شیری
maut han bar-haq hai lekin zindagi fani kahan

غزل

موت ہاں برحق ہے لیکن زندگی فانی کہاں

مانی جائسی

;

موت ہاں برحق ہے لیکن زندگی فانی کہاں
قصۂ ہستی بہ انجام تن آسانی کہاں

آپ کے سجدے میں روح سجدہ اے مانیؔ کہاں
کاش یہ احساس ہوتا خم ہے پیشانی کہاں

مشکلوں سے روح کو مانوس ہونا چاہئے
زندگی دشواریوں ہی میں ہے آسانی کہاں

اے زلیخا برتر از انسانیت کا ذکر چھوڑ
درد سے بیگانہ رہنا کار انسانی کہاں

تشنۂ مقصود دھوکھا ہے جھلک امید کی
صرف اک منظر سراب آسا ہے یہ پانی کہاں

کاٹ دی بستر پہ انگاروں کے ساری زندگی
اے تمنا اس سے بڑھ کر کوئی قربانی کہاں

منزل حیرت میں لایا امتحان تاب دید
دیکھیے لے جائے گی اب دل کی حیرانی کہاں

کثرت و وحدت میں نسبت ہے شعاع و شمس کی
ایک ہی جلوہ ہے جلووں کی فراوانی کہاں

مٹ کے میرے گھر کی رونق عالم عبرت بنی
دشت بھی ویراں ہے لیکن نفع ویرانی کہاں

عیش آزادی کبھی ملتا تو ہوتا رنج قید
مستقل جمعیت دل ہے پریشانی کہاں

یہ فضائے فکر اے مانیؔ ہے معراج سخن
اب مگر تخیل میں وہ برق سامانی کہاں