EN हिंदी
موت آئی مجھے کوچے میں ترے جانے سے | شیح شیری
maut aai mujhe kuche mein tere jaane se

غزل

موت آئی مجھے کوچے میں ترے جانے سے

وسیم خیر آبادی

;

موت آئی مجھے کوچے میں ترے جانے سے
نیند آ ہی گئی جنت کی ہوا کھانے سے

ہوں وہ عاشق کہ تہ قبر میں جل جاتا ہوں
شمع تربت پر اگر ملتی ہے پروانے سے

قصد اٹھنے کا قیامت نے کیا تو یہ کہا
لو یہ سر چڑھنے لگی پاؤں کے ٹھکرانے سے

وصل کی شب نہ کر اتنا بھی حجاب اے ظالم
شوخیاں تنگ ہیں تیری ترے شرمانے سے

کوئی ہنس ہنس کے سنے اور میں رو رو کے کہوں
لطف دونوں کو ملے درد کے افسانے سے

غنچہ چٹکا کوئی گلشن میں تو لیلیٰ سمجھی
میرے مجنوں نے پکارا مجھے ویرانے سے

رہے رنج و الم و وحشت و بربادی و یاس
اے جنوں کوئی نہ جائے مرے ویرانے سے

کس کو فرصت تھی پر اس طرح میں کچھ شعر وسیمؔ
کہہ لئے حضرت نوشادؔ کے فرمانے سے