EN हिंदी
موت آئے گی جو رسوائی کا ساماں ہوگا | شیح شیری
maut aaegi jo ruswai ka saman hoga

غزل

موت آئے گی جو رسوائی کا ساماں ہوگا

مرلی دھر شاد

;

موت آئے گی جو رسوائی کا ساماں ہوگا
چاک دل ہوگا اگر چاک گریباں ہوگا

دل کو بہلاتا ہوں یہ کہہ کے تری فرقت میں
پردۂ غیب سے خود وصل کا ساماں ہوگا

حشر میں دیکھیں گے رحمت کا تماشا زاہد
جب خطا‌ وار خطاؤں پہ پشیماں ہوگا

ملک الموت کو بھی ساتھ گل اپنے لانا
مجھ پہ احسان تیرا اے شب ہجراں ہوگا

رہنمائی رہ الفت میں جو اے خضر کرے
وہ فرشتہ تو نہیں مجھ سا ہی انساں ہوگا

ہم نہ کہتے تھے کہ ہے ہوش ربا حسن ترا
آئنہ دیکھ نہ تو دیکھ کے حیراں ہوگا

مجھ سے کہتی ہے شب وصل پریشاں نظری
آپ کے دل میں بھی شاید کوئی ارماں ہوگا

کوئے جاناں کی ہوس تجھ کو بہت ہے اے شادؔ
خاک کے ذروں کی مانند پریشاں ہوگا