EN हिंदी
موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی | شیح شیری
mausamon ki baaton tak guftugu rahi apni

غزل

موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی

اقبال عمر

;

موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی
میں نے کب کہی اپنی تم نے کب سنی اپنی

ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے
سلسلے سوالوں کے اور خامشی اپنی

ایک حد پہ قائم ہے گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے
تیرگی زمانے کی اور روشنی اپنی

کچھ حسین تصویریں رہ گئیں نگاہوں میں
ورنہ کیا گزر پاتی شام زندگی اپنی

فصل گل کے ہنگامے عارضی تو ہوتے ہیں
یوں نہیں گزر جاتے جیسے زندگی اپنی

کچھ اداس لوگوں نے میرا حال پوچھا تھا
ورنہ کون کرتا ہے عرض واقعی اپنی

اس خطا نے مجھ کو بھی شرمسار کر ڈالا
شہر کے رئیسوں سے دوستی نہ تھی اپنی

کچھ خوشی کے آنسو بھی اشک غم کے ساتھ آئے
اپنے جیسے لوگوں سے جب غزل سنی اپنی