موسموں کا جواب دے دیجے
آج تھوڑی شراب دے دیجے
آپ کا حسن ہے بہار مری
ان لبوں کے گلاب دے دیجے
کس لیے ہے نقاب میں چہرہ
پڑھنے والی کتاب دے دیجے
سر سے پا تک خمار کا عالم
یہ چھلکتی شراب دے دیجے
زلف کی شام صبح چہرے کی
یہی موسم جناب دے دیجے
ایک دن اور زندگی جی لیں
رات بھر کو شباب دے دیجے
غزل
موسموں کا جواب دے دیجے
صابر دت