EN हिंदी
موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا گرم ہوا کیا سرد ہوا | شیح شیری
mausam to badalte hain lekin kya garm hawa kya sard hawa

غزل

موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا گرم ہوا کیا سرد ہوا

قیصر شمیم

;

موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا گرم ہوا کیا سرد ہوا
اے دوست ہمارے آنگن میں رہتی ہے ہمیشہ زرد ہوا

سب اپنے شناسا چھوڑ گئے رستے میں ہمیں غیروں کی طرح
چہرے پہ ہمارے ڈال گئی لا کر یہ کہاں کی گرد ہوا

چھوٹے نہ کبھی پھولوں کا نگر کوشش تو یہی ہے اپنی مگر
اک روز اڑا لے جائے گی پتوں کی طرح بے درد ہوا

کیا بات ہوئی کیوں شہر جلا اب اس کے سوا کچھ یاد نہیں
اک فرد سراپا آگ ہوا پل بھر میں ہوا اک فرد ہوا

آئی ہے گھنے جنگل میں ابھی جو کھیل بھی چاہے کھیلے مگر
کل میرے ساتھ اڑائے گی پھر صحرا صحرا گرد ہوا

آنکھوں کی چمک موہوم ہوئی لو دیتے بدن افسردہ ہوئے
در آئی ہے قیصرؔ گھر میں مرے یہ کیسی رتوں کی سرد ہوا