EN हिंदी
موسم کے بدلنے کا کچھ اندازہ بھی ہوتا | شیح شیری
mausam ke badalne ka kuchh andaza bhi hota

غزل

موسم کے بدلنے کا کچھ اندازہ بھی ہوتا

مظہر امام

;

موسم کے بدلنے کا کچھ اندازہ بھی ہوتا
جب گھر ہی بنایا تھا تو دروازہ بھی ہوتا

ہم شعر نمک ریز سناتے سر محفل
جو زخم فسردہ تھا تر و تازہ بھی ہوتا

تم ہوتے تو معراج خیالات بھی ہوتی
بکھرے ہوئے الفاظ کا شیرازہ بھی ہوتا

جذبات کی آنکھوں میں چمکتا کوئی شعلہ
احساس کے رخسار پہ کچھ غازہ بھی ہوتا

رقاصۂ دیروز بھی بے پیرہن آتی
دوشیزۂ امکان کا خمیازہ بھی ہوتا