EN हिंदी
موسم کا زہر داغ بنے کیوں لباس پر | شیح شیری
mausam ka zahr dagh bane kyun libas par

غزل

موسم کا زہر داغ بنے کیوں لباس پر

سلیم شاہد

;

موسم کا زہر داغ بنے کیوں لباس پر
یہ سوچ کر نہ بیٹھ سکا سبز گھاس پر

مدت ہوئی کہ طائر جاں سرد ہو چکا
اڑتے رہے ہواؤں میں کچھ بد حواس پر

سورج کا پھول ابر کے پتوں میں گم رہا
شب کے شجر کا سایہ رہا مجھ اداس پر

وہ جا چکا ہے موڑ سے آنکھیں ہٹا بھی لے
بیکار ہونٹ ثبت ہیں خالی گلاس پر

کیسے نصیب ہو تری باتوں کا ذائقہ
جی آ گیا ہے تازہ پھلوں کی مٹھاس پر

بہتر ہے خود ہی اجنبی بن کر اسے ملیں
الزام آئے کیوں مرے صورت شناس پر

احساس بھی نہ تھا کہ ہے پتھر مرا بدن
ہاں ڈوبنا پڑا ہے ابھرنے کی آس پر

پانی کو روکئے کہ نہ ہونٹوں تک آ سکے
بے جا نہ عذر آئے کہیں میری پیاس پر

یہ کاروبار درد کا پھر پھیلتا گیا
کھولی دکاں تھی زخم ہنر کی اساس پر

شاہدؔ ہوئے ہیں درد کے شعلوں سے بے خبر
چنگاری پھینک دیجے ہوا میں کپاس پر