EN हिंदी
موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی | شیح شیری
mausam-e-gul mein hain diwanon ke bazar kai

غزل

موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی

ولی عزلت

;

موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی
شور بلبل کئی زنجیر کی جھنکار کئی

سب گئی بوئے مروت کی کل اس باغ سے حیف
بارے دامن کش دل رہ گئے ہیں خار کئی

کب لگ احباب کا غم مجھ کو دکھاوے گا فلک
خاک ہو گئے بہت اور ہیں سو چلن ہار کئی

اے سیہ چشمو نہیں کچھ مجھے گل زار سے کام
داغ لالہ ہی سے رکھتا ہوں سروکار کئی

سخت یاروں کی کدورت سے ہوا ہوں بے دل
کھا گئے آئینۂ دل مرا زنگار کئی

موسم گل میں مرے چاک گریباں کو دیکھ
پھاڑ گئے پیرہن صبر رفو کار کئی

دن پڑے شعلہ رخوں بن مجھے جوں دود چراغ
میری دل سوزی سے جلتے ہیں شب تار کئی

جلدی اول کی ہے پر آبلہ پاؤں میں مرے
اور وہ گل رو کی رہے راہ میں اب خار کئی

سرد مہری تری خوں گرم ہے از بس مجھ سات
ہیں رگ لعل جگر نالۂ خوں بار کئی