موسم گل ہے ترے سرخ دہن کی حد تک
یا مرے زخموں سے آراستہ تن کی حد تک
وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے کچھ بھی کیجے
یاد رہ جاتی ہے ہلکی سی چبھن کی حد تک
نہ کسی گل سے تعلق نہ کسی خار سے بیر
ربط گل زار سے ہے بوئے سمن کی حد تک
وہ مجھے بھول نہیں پایا ابھی تک یعنی
میں اسے یاد ہوں ماتھے کی شکن کی حد تک
بات اک اور پس پردۂ الفاظ بھی تھی
اس نے خط میرا پڑھا لطف سخن کی حد تک
مہر و مہتاب کی خواہش سے مجھے کیا لینا
مطمئن دل ہے جب اک سیم بدن کی حد تک
یہ جو کہنا ہے کہ ہر حسن جفا پیشہ ہے
ایک تہمت ہے مرے رشک عدن کی حد تک

غزل
موسم گل ہے ترے سرخ دہن کی حد تک
عمران الحق چوہان