موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا
لے گئی سب کو جوانی میں اکیلا رہ گیا
جانے کیا ہو کر نگاہوں سے اشارہ رہ گیا
ہائے خون آرزو جب ہل کے پردا رہ گیا
عشق کی رسوائیاں وہ حسن کی بد نامیاں
ہم بھلا بیٹھے مگر دنیا میں چرچا رہ گیا
اک سراپا ناز تنہائی مزار عاشقاں
ہائے وہ عالم کہ جب خود حسن تنہا رہ گیا
رعب حسن آداب عشق ان کی حیا کا احترام
اٹھ گئی چلمن تو اب پردا ہی پردا رہ گیا
کچھ بڑھانا تھا مذاق بندگی کا حوصلہ
پھیر لی تو نے نظر شرما کے سجدا رہ گیا
ان کے جلووں نے ہزاروں کو نوازا اے شفیقؔ
آہ اپنی بے زباں نظروں کو شکوا رہ گیا
غزل
موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا
شفیق جونپوری