موسم گل آ گیا پھر دشت پیمائی رہے
اے جنوں لازم ہے شغل آبلہ پائی رہے
لاکھ مضراب الم کی کار فرمائی رہے
اے رباب عشق پھر بھی نغمہ پیرائی رہے
دیکھنا ہے سوز و ساز موسم گل کی بہار
امتزاج شعلہ و شبنم کی رعنائی رہے
آ سکا لب تک کسی کے بھی نہ حرف مدعا
ہم تمنائی رہے وہ بھی تمنائی رہے
ہم بھی دکھلائیں جہاں کو دل کے داغوں کی بہار
آپ کی حاصل اگر ہم کو مسیحائی رہے
جستجوئے یار میں پایا نہ کوئی دم قرار
نکہت گل کی طرح عالم میں ہرجائی رہے
رونق دیر و حرم کا قادریؔ کیا پوچھنا
روشنی اک شمع کی دو گھر میں جب چھائی رہے
غزل
موسم گل آ گیا پھر دشت پیمائی رہے
شاغل قادری