موجودگی کا اس کی اثر ہونے لگا ہے
سب اس کے سوا محو نظر ہونے لگا ہے
اطراف مرے خاک اڑا کرتی ہے اکثر
طے اب مری جانب بھی سفر ہونے لگا ہے
پرکھوں سے چلی آتی ہے یہ نقل مکانی
اب مجھ سے بھی خالی مرا گھر ہونے لگا ہے
جلدی سے میں اب اس کی طرف رخ نہیں کرتا
آئینہ مرا سینہ سپر ہونے لگا ہے
ترتیب عناصر کی بگڑنے لگی شاید
عالم مرا اب زیر و زبر ہونے لگا ہے
اب سنگ دلی مجھ سے چھپائے نہیں چھپتی
آنکھوں سے نمودار شرر ہونے لگا ہے
عرصہ کوئی درکار ہوا کرتا تھا راہیؔ
اب روز کوئی معرکہ سر ہونے لگا ہے
غزل
موجودگی کا اس کی اثر ہونے لگا ہے
غلام مرتضی راہی