موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
اے مست ناز تم تو مرے ہوش ہو گئے
سوتے میں وہ جو مجھ سے ہم آغوش ہو گئے
جتنے گلے تھے خواب فراموش ہو گئے
وعدے کی رات آئی قضا اس ادا کے ساتھ
دھوکے میں تیرے اس سے ہم آغوش ہو گئے
برسوں ہوئے نہ تم نے کیا بھول کر بھی یاد
وعدے کی طرح ہم بھی فراموش ہو گئے
آنکھوں میں بھی جو آئے تو اللہ رے حجاب
بن کر نظر نظر سے وہ روپوش ہو گئے
کیا کیا زباں دراز چراغ انجمن میں تھے
دامن کشاں تم آئے تو خاموش ہو گئے
یاران رفتہ بات کا دیتے نہیں جواب
کیا کہہ دیا فضا نے کہ خاموش ہو گئے
آئی شب وصال تو نیند آ گئی انہیں
ہم ہوش میں جو آئے وہ مدہوش ہو گئے
مر کر تمام سر سے ٹلیں آفتیں جلیلؔ
ہم جان دے کے سب سے سبک دوش ہو گئے
غزل
موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
جلیلؔ مانک پوری