EN हिंदी
موجود کچھ نہیں یہاں معدوم کچھ نہیں | شیح شیری
maujud kuchh nahin yahan madum kuchh nahin

غزل

موجود کچھ نہیں یہاں معدوم کچھ نہیں

ضیاء الحسن

;

موجود کچھ نہیں یہاں معدوم کچھ نہیں
یہ زیست ہے تو زیست کا مفہوم کچھ نہیں

منظر حجاب اور ہی کچھ منظروں کے ہیں
معلوم ہم کو یہ ہے کہ معلوم کچھ نہیں

خواب و خیال سمجھیں تو موجود ہے جہاں
کچھ بھی سوائے نقطۂ موہوم کچھ نہیں

حرف و بیاں نظارے ستارے دل و نظر
ہر شے میں انتشار ہے منظوم کچھ نہیں

جو مل گیا ہے، جس کی ہمیں آرزو رہی
اور جس سے خود کو رکھا ہے محروم کچھ نہیں

جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے جیتے ہیں
پس طے ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں