موجۂ ریگ روان غم میں بہہ کے دیکھنا
مفلسی میں دوستوں کے ساتھ رہ کے دیکھنا
دامن اظہار میں جذبے سما سکتے ہیں نہیں
بات پھر بھی بات ہے اک بار کہہ کے دیکھنا
خود کو مٹی کا گھروندا فرض ہی کرنا نہیں
آندھیوں کی زد میں رہنا اور ڈھہ کے دیکھنا
دل کے سناٹے میں خوشبو کے دریچے کھل گئے
دستکوں کے پھول دروازے پہ مہکے دیکھنا
کاسۂ فطرت میں پھر خواہش کے سکے بج اٹھے
پھر پرندے سانس کی ڈالی پہ چہکے دیکھنا
بے اثر ہی کیوں نہ ہو پر اپنی ذاتی سوچ ہو
دوستو تخلیق فن کا کرب سہہ کے دیکھنا
بادشاہت کے مزے ہیں خاکساری میں سلیمؔ
یہ نظارہ یار کے کوچے میں رہ کے دیکھنا
غزل
موجۂ ریگ روان غم میں بہہ کے دیکھنا
سردار سلیم