موج نسیم صبح نہ جوش نمو سے تھا
جو پھول سرخ رو تھا خزاں کے لہو سے تھا
تیرے سکوت نے اسے ویران کر دیا
دل باغ باغ تھا تو تری گفتگو سے تھا
اب دل کے رہ گزار میں وہ چاندنی کہاں
اپنا بھی ربط و ضبط کسی ماہ رو سے تھا
مدت ہوئی کہ دل کا وہ گلشن اجڑ گیا
شاداب جو ترے نفس مشکبو سے تھا
خواب و خیال ہیں وہ نشاط آفرینیاں
رقص بہار دل میں تری آرزو سے تھا
سوئے ادب کہوں کہ اسے بے تکلفی
راغبؔ بجائے آپ مخاطب وہ تو سے تھا

غزل
موج نسیم صبح نہ جوش نمو سے تھا
راغب مرادآبادی