موج خوں جوش میں تھی اپنے قدم سے پہلے
کوئی آیا تھا یہاں دشت میں ہم سے پہلے
طور بے نور تھا موسیٰ کے قدم سے پہلے
کس نے دیکھا ہے ترے حسن کو ہم سے پہلے
خیر گزری کہ جنوں وقت پہ کام آ ہی گیا
سنگ در مل گیا محراب حرم سے پہلے
ہم بھی کندھوں پہ اٹھا لائیں گے مقتل میں صلیب
کچھ اشارہ تو ملے اہل کرم سے پہلے
تشنگیٔ لب اصغر کا تقاضا تھا رضاؔ
ورنہ تلوار اٹھاتے نہ قلم سے پہلے
غزل
موج خوں جوش میں تھی اپنے قدم سے پہلے
موسیٰ رضا