موج ہوا تو اب کے عجب کام کر گئی
اڑتے ہوئے پرندوں کے پر بھی کتر گئی
آنکھیں کہیں دماغ کہیں دست و پا کہیں
رستوں کی بھیڑ بھاڑ میں دنیا بکھر گئی
کچھ لوگ دھوپ پیتے ہیں ساحل پہ لیٹ کر
طوفان تک اگر کبھی اس کی خبر گئی
نکلے کبھی نہ گھر سے مگر اس کے باوجود
اپنی تمام عمر سفر میں گزر گئی
دیکھا انہیں تو دیکھنے سے جی نہیں بھرا
اور آنکھ ہے کہ کتنے ہی خوابوں سے بھر گئی
جانے ہوا نے کان میں چپکے سے کیا کہا
کچھ تو ہے کیوں پہاڑ سے ندی اتر گئی
سورج سمجھ سکا نہ اسے عمر بھر نظامؔ
تحریر ریت پر تو ہوا چھوڑ کر گئی
غزل
موج ہوا تو اب کے عجب کام کر گئی
شین کاف نظام