موج ہوا سے پھولوں کے چہرے اتر گئے
گل ہو گئے چراغ گھروندے بکھر گئے
پیڑوں کو چھوڑ کر جو اڑے ان کا ذکر کیا
پالے ہوئے بھی غیر کی چھت پر اتر گئے
یادوں کی رت کے آتے ہی سب ہو گئے ہرے
ہم تو سمجھ رہے تھے سبھی زخم بھر گئے
ہم جا رہے ہیں ٹوٹتے رشتوں کو جوڑنے
دیوار و در کی فکر میں کچھ لوگ گھر گئے
چلتے ہوؤں کو راہ میں کیا یاد آ گیا
کس کی طلب میں قافلے والے ٹھہر گئے
جو ہو سکے تو اب کے بھی ساگر کو لوٹ آ
ساحل کے سیپ سواتی کی بوندوں سے بھر گئے
اک ایک سے یہ پوچھتے پھرتے ہیں اب نظامؔ
وہ خواب کیا ہوئے وہ مناظر کدھر گئے
غزل
موج ہوا سے پھولوں کے چہرے اتر گئے
شین کاف نظام