EN हिंदी
موج ہوا سے پھولوں کے چہرے اتر گئے | شیح شیری
mauj-e-hawa se phulon ke chehre utar gae

غزل

موج ہوا سے پھولوں کے چہرے اتر گئے

شین کاف نظام

;

موج ہوا سے پھولوں کے چہرے اتر گئے
گل ہو گئے چراغ گھروندے بکھر گئے

پیڑوں کو چھوڑ کر جو اڑے ان کا ذکر کیا
پالے ہوئے بھی غیر کی چھت پر اتر گئے

یادوں کی رت کے آتے ہی سب ہو گئے ہرے
ہم تو سمجھ رہے تھے سبھی زخم بھر گئے

ہم جا رہے ہیں ٹوٹتے رشتوں کو جوڑنے
دیوار و در کی فکر میں کچھ لوگ گھر گئے

چلتے ہوؤں کو راہ میں کیا یاد آ گیا
کس کی طلب میں قافلے والے ٹھہر گئے

جو ہو سکے تو اب کے بھی ساگر کو لوٹ آ
ساحل کے سیپ سواتی کی بوندوں سے بھر گئے

اک ایک سے یہ پوچھتے پھرتے ہیں اب نظامؔ
وہ خواب کیا ہوئے وہ مناظر کدھر گئے