موج گل موج صبا موج سحر لگتی ہے
سر سے پا تک وہ سماں ہے کہ نظر لگتی ہے
ہم نے ہر گام پہ سجدوں کے جلائے ہیں چراغ
اب ہمیں تیری گلی راہ گزر لگتی ہے
لمحے لمحے میں بسی ہے تری یادوں کی مہک
آج کی رات تو خوشبو کا سفر لگتی ہے
جل گیا اپنا نشیمن تو کوئی بات نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ اب آگ کدھر لگتی ہے
ساری دنیا میں غریبوں کا لہو بہتا ہے
ہر زمیں مجھ کو مرے خون سے تر لگتی ہے
کوئی آسودہ نہیں اہل سیاست کے سوا
یہ صدی دشمن ارباب ہنر لگتی ہے
واقعہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا
یہ تو اخبار کے دفتر کی خبر لگتی ہے
لکھنؤ کیا تری گلیوں کا مقدر تھا یہی
ہر گلی آج تری خاک بسر لگتی ہے
غزل
موج گل موج صبا موج سحر لگتی ہے
جاں نثاراختر