موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے
میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئنہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
اڑتے بادل کے تعاقب میں پھرو گے کب تک
درد کی دھوپ میں نکلا نہیں کرتے گھر سے
کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں
اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے
وادیٔ خواب میں اس گل کا گزر کیوں نہ ہوا
رات بھر آتی رہی جس کی مہک بستر سے
طعن اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیبؔ
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے

غزل
موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے
شکیب جلالی