موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے
زندگی کار گہ شیشہ گراں ہو جیسے
دل پہ یوں عکس فگن ہے کوئی بھولی ہوئی یاد
سر کہسار دھندلکے کا سماں ہو جیسے
حاصل عمر وفا ہے بس اک احساس یقیں
وہ بھی پروردۂ آغوش گماں ہو جیسے
مجھ سے وہ آنکھ چراتا ہے تو یوں لگتا ہے
ساری دنیا مری جانب نگراں ہو جیسے
آج اشعرؔ سے سر راہ ملاقات ہوئی
کوئی درماندۂ دل شعلہ بجاں ہو جیسے
غزل
موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے
حبیب اشعر دہلوی