موج در موج سفینوں سے ہے دھارا روشن
وہ جو اترا تو ہوا شب کا کنارا روشن
کیا پتہ تیرے مرے دشت سے لوٹ آنے تک
شہر امکاں کا رہے گا بھی نظارہ روشن
راستہ کوئی زمیں پر نظر آئے نہ سہی
آسماں پر ہے مگر ایک ستارہ روشن
دشت در دشت ترے نور کے پرکالے تھے
سمت در سمت ہوا مجھ کو اشارہ روشن
میں نے کر دی ہے سیہ آب و ہوائے دنیا
اس نے آیت کی طرح مجھ کو اتارا روشن
آگ سے بھی مجھے محفوظ وہی رکھے گا
خس و خاشاک میں کر دے جو شرارہ روشن

غزل
موج در موج سفینوں سے ہے دھارا روشن
شفق سوپوری