EN हिंदी
موج در موج سفینوں سے ہے دھارا روشن | شیح شیری
mauj-dar-mauj safinon se hai dhaara raushan

غزل

موج در موج سفینوں سے ہے دھارا روشن

شفق سوپوری

;

موج در موج سفینوں سے ہے دھارا روشن
وہ جو اترا تو ہوا شب کا کنارہ روشن

کیا پتہ تیرے مرے دشت سے لوٹ آنے تک
شہر امکان رہے گا ابھی سارا روشن

راستہ کوئی زمیں پر نظر آئے نہ سہی
آسماں پر ہے مگر ایک ستارہ روشن

دشت در دشت ترے نور کے پر کالے تھے
سمت در سمت ہوا مجھ کو اشارہ روشن

میں نے کر دی ہے سیہ آب و ہوائے دنیا
اس نے آیت کی طرح مجھ کو اتارا روشن

آگ سے بھی مجھے محفوظ وہی رکھے گا
خس و خاشاک میں کر دے جو شرارہ روشن