مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
پابند یہ فقیر نہیں سنگ و خشت کا
سر سبز ہوں جو آپ دکھا دیجے خط سبز
کشتوں کو کھیت میں ابھی عالم ہو کشت کا
اس حور کی جو گلشن عارض کی یاد تھی
دیکھا کیا فراق میں عالم بہشت کا
کیا منشی ازل کی یہ صنعت ہے دیکھنا
ماہر نہیں کسی کی کوئی سر نوشت کا
نادان اعتراض ہے صانع پہ غور کر
بے جا ہے امتیاز یہاں خوب و زشت کا
اے برقؔ سیر کرتے ہیں ہم تو جہان کی
ہر کوچۂ صنم ہے نمونہ بہشت کا
غزل
مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
مرزارضا برق ؔ