مطلب کے لیے ہیں نہ معانی کے لیے ہیں
یہ شعر طبیعت کی روانی کے لیے ہیں
وہ چشم اگر سحر بیانی کے لیے ہے
یہ لب بھی مری تشنہ دہانی کے لیے ہیں
جو میرے شب و روز میں شامل ہی نہیں تھے
کردار وہی میری کہانی کے لیے ہیں
یہ داغ محبت کی نشانی کے علاوہ
اے عشق تری مرثیہ خوانی کے لیے ہیں
آتی ہے سکوت سحر و شام کی آواز
دراصل تو ہم نقل مکانی کے لیے ہیں
جو رنگ گل و لالہ و نسریں سے ہیں منسوب
وہ رنگ اب آشفتہ بیانی کے لیے ہیں
غزل
مطلب کے لیے ہیں نہ معانی کے لیے ہیں
مہتاب حیدر نقوی